حقارت کی نظر
میں حد درجہ کا متکبر انسان تھا۔دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا اور ہر کسی کو بات بات پر گالی دیتا تھا۔رب تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کی بھی ناقدرتی اور ناشکری کرتا۔انسان کو انسان نہ سمجھتا تھا۔جیسے عمر بڑھتی گئی میں بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتا گیا اور ایسا وقت بھی آیا کہ اپنےایمان سے بھی بدگمان ہو گیا اور کہتا تھا کہ کاش میں غیر مسلم ہوتا(نعوذ باللہ)۔اگر کوئی میرے سامنے اللہ کا نام لیتا تو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا ۔گھر والے بھی اسی غلط فہمی میں رہے کہ شاید وقت کے ساتھ ساتھ میرے اندر تبدیلی آجائے گی‘میرا رویہ بھی بہتر ہو جائے گا۔جب جوانی کی عمر کو پہنچا تو قریبی رشتہ داروں میں میری منگنی ہو گئی۔گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید شادی کی فکر ہو گی تو شاید میں اندر تبدیلی آجائے گی‘ ذمہ داری کا احساس ہوگا مگر میرے اندر ذرا برابر بھی تبدیلی نہ آئی۔
منگیتر کے نام پر تھوکتا تھا
جس لڑکی کے ساتھ میری منگنی کی گئی وہ خوبصورت‘با حیا اور نیک تھی مگر میں اسے ذرا برابر بھی اہمیت نہ دیتا اور کہتا کہ وہ میرے قابل نہیں‘ بد صورت‘بے وقوف ہے۔رشتہ داروں میں جب کبھی اس لڑکی کا تذکرہ ہوتا تو اکثر اس کا نام سنتے ہی میں تھوکنا شروع کردیتا۔اس کی وجہ اس لڑکی میں کوئی عیب وغیرہ نہیں بلکہ سراسر میرا تکبر تھا۔میں کہتا تھا کہ وہ میرے برابر کی نہیں‘میں خوبصورت‘سمجھدار‘ ذہین اور اعلیٰ خوبیوں کا مالک ہوں جبکہ اس کے اندر ایسی کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی۔لڑکی والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اس سب کے باوجود بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا مگر میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا ۔لڑکی کے گھر والوں نےمعاملہ کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنی روش نہ بدلی جس وجہ سے آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔
اس دن کے بعد میری زندگی کا زوال شروع ہو گیا۔کچھ عرصہ بعد میں نے رشتہ داروں سے باہر بڑی دھوم دھام کے ساتھ شادی کی ‘بہت خوش تھا کہ جیسی لڑکی چاہتا تھا وہ ویسی مل رہی ہے مگر یہ بھول گیا تھا کہ میرے ساتھ مکافات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔شادی کے دوسرے دن ہی بیوی چھوڑ کر میکہ چلی گئی‘ مجھ پر ایسا گھنائونا الزام لگایا جس کی کوئی حقیقت نہ تھی اور طلاق دینے پر مجبور کر دیا۔
سارا غرور خاک میں مل گیا
میں رشتہ داروں میں اور باہر ایسا بدنام ہو چکا تھا کہ کوئی بھی مجھ سے شادی کرنے کو تیار نہ تھا۔کافی جگہ رشتے تلاش کی ‘ آخر کار ایسی لڑکی سے شادی کرنی پڑی جس کے طعنہ اپنی منگیتر کو دیتا تھا کہ یہ موٹی‘ بدصورت اور منہ زور ہے حالانکہ اس لڑکی میں میں ایسا کوئی عیب موجود نہ تھا۔مگر میری دوسری بیوی میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں مگر اس کے باوجود بھی مجھے سمجھوتہ کرنا پڑا کیونکہ کوئی بھی مجھے رشتہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ بات صرف یہاں تک ختم نہ ہوئی بلکہ میرے روزگار کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔مختلف کمپنیوں میں نوکری کی درخواست دی مگر ہر جگہ سے ناکامی ہی ملی۔پھر کوشش کرکے اپنا کاروبار شروع کیا تو اس میں بھی بری طرح ناکام ہوا اور ایسا گرا کہ آج تک دوبارہ سنبھل نہ پایا۔اس وقت حالات کی کشمکش ‘ بیوی کے بے جا طعنوں‘فقر و فاقہ اور غربت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔میرا سارا تکبر خاک میں مل چکا ہے مگر بہت دیر ہو چکی ہے۔
مکافات کا سلسلہ اب بھی جاری
اب عبقری سے متعارف ہوا ہوں تو معلوم ہوا کہ یہ قسمت کا کھیل نہیں بلکہ مکافات عمل ہے جس میں ہر دن‘ ہر گھڑی پِس رہا ہوں۔اب وظائف کرتا ہوں‘ روتا ہوں‘ اللہ سے توبہ کرتا ہوں کہ اب مکافات کا سلسلہ بند ہو جائے تاکہ زندگی میں کوئی سکھ کا لمحہ میسر ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر‘دوسرے کی عیب جوئی اور حق تلفی سے بچائے‘ آمین!
قارئین!گزشتہ چند سال سے عبقری رسالہ ہر ماہ پڑھ رہا ہوں۔میںمحترم شیخ الوظائف کو دن رات دعائیں دیتا ہوں کیونکہ ان کی روحانی محافل سے ایمان اور زندگی گزارنے کا رخ ملا ہے۔عبقری میں شائع ہونے والی ہر تحریر قابل تعریف اور فائدہ مند ہے ۔شیخ الوظائفکا کالم’’ حال ِ دل‘‘طبی کالم اور علامہ لاہوتی صاحب کا سلسلہ’’ جنات کا پیدائشی دوست‘‘ بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔اس کے علاوہ مکافات پر مبنی واقعات بھی ضرور پڑھتا ہوں جس سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔زیادہ تر لوگ اپنے ارد گرد آنکھوں دیکھے واقعات تحریر کرتے ہیں مگر آج اس ضمن میں اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے کیونکہ مجھے علم ہے کہ عبقری میں راز داری کا سوفیصد خیال رکھا جاتا ہے۔والسلام
ج‘ملتان
حقارت کی نظرمیں حد درجہ کا متکبر انسان تھا۔دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھتا اور ہر کسی کو بات بات پر گالی دیتا تھا۔رب تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں کی بھی ناقدرتی اور ناشکری کرتا۔انسان کو انسان نہ سمجھتا تھا۔جیسے عمر بڑھتی گئی میں بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتا گیا اور ایسا وقت بھی آیا کہ اپنےایمان سے بھی بدگمان ہو گیا اور کہتا تھا کہ کاش میں غیر مسلم ہوتا(نعوذ باللہ)۔اگر کوئی میرے سامنے اللہ کا نام لیتا تو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا ۔گھر والے بھی اسی غلط فہمی میں رہے کہ شاید وقت کے ساتھ ساتھ میرے اندر تبدیلی آجائے گی‘میرا رویہ بھی بہتر ہو جائے گا۔جب جوانی کی عمر کو پہنچا تو قریبی رشتہ داروں میں میری منگنی ہو گئی۔گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید شادی کی فکر ہو گی تو شاید میں اندر تبدیلی آجائے گی‘ ذمہ داری کا احساس ہوگا مگر میرے اندر ذرا برابر بھی تبدیلی نہ آئی۔منگیتر کے نام پر تھوکتا تھاجس لڑکی کے ساتھ میری منگنی کی گئی وہ خوبصورت‘با حیا اور نیک تھی مگر میں اسے ذرا برابر بھی اہمیت نہ دیتا اور کہتا کہ وہ میرے قابل نہیں‘ بد صورت‘بے وقوف ہے۔رشتہ داروں میں جب کبھی اس لڑکی کا تذکرہ ہوتا تو اکثر اس کا نام سنتے ہی میں تھوکنا شروع کردیتا۔اس کی وجہ اس لڑکی میں کوئی عیب وغیرہ نہیں بلکہ سراسر میرا تکبر تھا۔میں کہتا تھا کہ وہ میرے برابر کی نہیں‘میں خوبصورت‘سمجھدار‘ ذہین اور اعلیٰ خوبیوں کا مالک ہوں جبکہ اس کے اندر ایسی کوئی بھی چیز نظر نہیں آتی۔لڑکی والوں کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے اس سب کے باوجود بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا مگر میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا ۔لڑکی کے گھر والوں نےمعاملہ کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنی روش نہ بدلی جس وجہ سے آخر کار رشتہ ٹوٹ گیا۔اس دن کے بعد میری زندگی کا زوال شروع ہو گیا۔کچھ عرصہ بعد میں نے رشتہ داروں سے باہر بڑی دھوم دھام کے ساتھ شادی کی ‘بہت خوش تھا کہ جیسی لڑکی چاہتا تھا وہ ویسی مل رہی ہے مگر یہ بھول گیا تھا کہ میرے ساتھ مکافات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔شادی کے دوسرے دن ہی بیوی چھوڑ کر میکہ چلی گئی‘ مجھ پر ایسا گھنائونا الزام لگایا جس کی کوئی حقیقت نہ تھی اور طلاق دینے پر مجبور کر دیا۔سارا غرور خاک میں مل گیامیں رشتہ داروں میں اور باہر ایسا بدنام ہو چکا تھا کہ کوئی بھی مجھ سے شادی کرنے کو تیار نہ تھا۔کافی جگہ رشتے تلاش کی ‘ آخر کار ایسی لڑکی سے شادی کرنی پڑی جس کے طعنہ اپنی منگیتر کو دیتا تھا کہ یہ موٹی‘ بدصورت اور منہ زور ہے حالانکہ اس لڑکی میں میں ایسا کوئی عیب موجود نہ تھا۔مگر میری دوسری بیوی میں یہ تمام چیزیں موجود ہیں مگر اس کے باوجود بھی مجھے سمجھوتہ کرنا پڑا کیونکہ کوئی بھی مجھے رشتہ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ بات صرف یہاں تک ختم نہ ہوئی بلکہ میرے روزگار کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔مختلف کمپنیوں میں نوکری کی درخواست دی مگر ہر جگہ سے ناکامی ہی ملی۔پھر کوشش کرکے اپنا کاروبار شروع کیا تو اس میں بھی بری طرح ناکام ہوا اور ایسا گرا کہ آج تک دوبارہ سنبھل نہ پایا۔اس وقت حالات کی کشمکش ‘ بیوی کے بے جا طعنوں‘فقر و فاقہ اور غربت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔میرا سارا تکبر خاک میں مل چکا ہے مگر بہت دیر ہو چکی ہے۔مکافات کا سلسلہ اب بھی جاریاب عبقری سے متعارف ہوا ہوں تو معلوم ہوا کہ یہ قسمت کا کھیل نہیں بلکہ مکافات عمل ہے جس میں ہر دن‘ ہر گھڑی پِس رہا ہوں۔اب وظائف کرتا ہوں‘ روتا ہوں‘ اللہ سے توبہ کرتا ہوں کہ اب مکافات کا سلسلہ بند ہو جائے تاکہ زندگی میں کوئی سکھ کا لمحہ میسر ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر‘دوسرے کی عیب جوئی اور حق تلفی سے بچائے‘ آمین!قارئین!گزشتہ چند سال سے عبقری رسالہ ہر ماہ پڑھ رہا ہوں۔میںمحترم شیخ الوظائف کو دن رات دعائیں دیتا ہوں کیونکہ ان کی روحانی محافل سے ایمان اور زندگی گزارنے کا رخ ملا ہے۔عبقری میں شائع ہونے والی ہر تحریر قابل تعریف اور فائدہ مند ہے ۔شیخ الوظائفکا کالم’’ حال ِ دل‘‘طبی کالم اور علامہ لاہوتی صاحب کا سلسلہ’’ جنات کا پیدائشی دوست‘‘ بہت شوق سے پڑھتا ہوں۔اس کے علاوہ مکافات پر مبنی واقعات بھی ضرور پڑھتا ہوں جس سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔زیادہ تر لوگ اپنے ارد گرد آنکھوں دیکھے واقعات تحریر کرتے ہیں مگر آج اس ضمن میں اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے کیونکہ مجھے علم ہے کہ عبقری میں راز داری کا سوفیصد خیال رکھا جاتا ہے۔والسلام
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں